تھائی لینڈ کی طوائف اور کراچی کا پارلر

جہاز کی سیٹ پر بیٹھتے ہی میں نے پشت سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کرکے ایک گہری سانس لی۔ مستقل کام ، کام اور کام نے میرے اعصاب شل کردیے تھے اور اسی لیے میں اس لمبی فلائیٹ پر صرف آنکھیں موندھ کر آرام کرنا چاہتی تھی۔ جس ائیر کرافٹ میں ، میں سفر کررہی تھی۔ وہ ایک بڑی ائیر کمپنی کا کشادہ جہاز تھا اور اس کی سیٹیں بھی آرام دہ تھیں ۔ جہاز کے بیچ میں چار چار اور کھڑکی کی طرف دو دو سیٹیں تھی۔ میں کھڑکی کی طرف بیٹھی تھی ۔ مسافروں کی آمد جاری تھی،

جہاز کی سبھی سیٹیں تقریباً بھر چکی تھیں۔ یہ جہاز بنکاک سے سری لنکا کے لیے روانہ ہورہاتھا جہاں سے آگے مجھے پاکستان کےلیے دوسرا جہاز بدلنا تھا۔ اس پوری فلائیٹ میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جن کو وہاں سے آگے جانا تھا۔ میں یہ سب سو چ رہی تھی کہ اچانک کسی نے مجھے ہیلو کہا۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں اس کو دیکھتی یا جواب دیتی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور پھر غیر ارادی طو ر پر بڑی سرد مہری سے جواب دیا۔ وہ ایک تھائی لڑکی تھی ۔

میں ایک سیمنار اٹینڈ کرنے تھائی لینڈ آئی تھی۔ میں ایک مسلمان باپردہ خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون تھی جس کے لیے بنکاک جیسے شہر میں اکیلے آنا اور اتنے دن قیام کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ جس سیمنار میں مجھے دعوت دی گئی تھی وہ آگے میرے مستقبل کےلیے کافی اہمیت کا حامل تھا اور پھر میری رہائش سے لے کر مجھے واپس جہاز تک پہنچانا بھی میرے میزبان کی ہی ذمہ داری تھی سارے وسائل میسر تھے ۔ سیمنا ر ختم ہونے کے بعد میزبانوں نے ہمیں ایک پورا دن بنکاک کی سیر بھی کروائی بس اسی بہانے مجھے شہر دیکھنے کا موقع مل گیا اور پھر وہ ساری باتیں جو آج تک صرف سنی تھی اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لی۔

پورے شہر میں عورتوں اور لڑکیوں کا راج تھا۔ ہرکاروبار عورت کے ہاتھوں میں تھا یہاں تک کے دکانوں کی سیلز گرل سے لے کر ہوٹلز کے کاؤنٹرز پر بھی خوبصورت نازک نازک سی کم عمر لڑکیاں ہی نظر آئیں۔ مرد زیادہ تر رکشا،بسیں، ٹیکسی وغیرہ چلانے اور دوسرے محنت طلب کاموں میں مصروف نظر آئے۔ تھائی لینڈ کے دار الحکومت بنکاک شہر کی ہر شاہراہ ہرگلی ہرکونے کو بہت خوبصورت اور توجہ سے سجایا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غیر ملکی سیاحوں کی یہاں آمد تھائی لینڈ کی معیشت کو بڑا سہار ا فراہم کرتی ہے۔ ہرچیز میں صفائی ستھرائی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

پائلٹ نے جہاز میں مسافروں کو خوش آمدید کہتے ہوئے جہاز کی روانگی کا اعلان کیااور سب مسافر اپنی اپنی سیٹ بیلٹ باندھ کر سیدھے بیٹھ گئے۔ میں نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر اپنی آنکھیں موندھ لیں۔ تقریباً پندرہ یا بیس منٹ بعد تھائی لڑکی مسکرائی اور سامنے کھڑی ہوئی ائیر ہوسٹس کی طرف اشارہ کیا ، جو مجھ سے کھانے کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ میں نے اسے اپنی پسند بتائی اور پانی مانگا۔ میرے ساتھ والی لڑکی نے اندازہ لگالیا تھا وہ ٹوٹی پھو ٹی اردو میں بولی “آپ بھی پاکستان جارہی ہیں؟” میں نے چونک کر اس کی جانب دیکھا اور حیرت سے پوچھا آپ کو اردو آتی ہے؟

وہ ہنستے ہوئے بولی جی میں پانچ سالوں سے پاکستانیوں میں جاب کررہی ہوں۔ میں نے اب غور سے اس کی جانب دیکھا آپ پاکستان میں کیا جاب کرتی ہیں؟ وہ مسکراتے ہوئے بولی میں کراچی کےایک بڑے اور مشہور مساج پارلر میں کام کرتی ہوں۔ آپ کو شاید معلوم ہوکہ تھائی مساج دنیا بھر میں مشہور ہے اور اس سے کئی طرح کی بیماریوں کا علاج بھی کیاجاتا ہے۔ جو ریڑھ کی ہڈی سے لے کر آپ کے جوڑوں کے درد تک کو ناصرف دور کرتا ہے۔ بلکہ آہستہ آہستہ آپ کو اس تکلیف سے مکمل نجات بھی دلاتا ہے۔ میں نے حقارت بھر ی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا او! تو آپ مساج کرنے والی خاتون ہیں ۔

اس نے کہا جی ہاں ۔ دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ وہ بڑے تحمل سے میری بات برداشت کرتے ہوئے دوبارہ مسکرائی اور بولی “آپ کا ہمارا ملک کیسا لگا” میں جو پہلے ہی اس کے کام کے بارے میں جان کر دل ہی دل میں وہ سب باتیں یاد کر رہی تھی۔ پھر بھی اس کا دل رکھنے کے لیے بولی ہاں میں نے بس ایک ہی دن آپ کے شہر بنکاک کی سیر کی ہے۔ مجھے کہیں بھی کسی قسم کی بھی بدنظمی نظر نہیں آئی۔مگر ہاں ایک زمانے سے جسم فروشی کے حوالے سے بدنام رہا ہے

جس کی جھلک آپ لوگ کی نائٹ لائف میں اب بھی صاف نظر آتی ہے۔ شاید آپ کی اکانومی کا دارومدار اب بھی سیاحت سے زیادہ جسم فروشی پر ہے۔ اس نے گہر ی سانس لی اور میری جانب دیکھتے ہوئے بولی جی جانتی ہوں کہ تھا ئی خواتین اپنی اس بات کے لیے دنیا بھر میں بدنام ہیں مگر آپ اس با رے میں کچھ نہیں اسی لیے شاید غلط فہمی کا شکا رہیں۔ میں نے حیرت سے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو پوچھا:کیا مطلب؟ کیسے؟ وہ میرے سوال پر مسکرائی اور اعتماد سے بولی “ہاں ” ہم بدنام ضرور ہیں مگر ہمیں ناز ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جن کی ماؤں ، بہنوں اوربیٹیوں نے اپنے ملک وقوم کو غربت افلاس ، ناخواندگی اور کم ملکی وسائل جیسی لاتعداد خامیوں سے دور کرنے کے لیے اور اپنے ملک کوسنوار نے اپنی آنے والی نسلوں کو ایک مضبوط اور مستحکم قوم بنانے او ر اپنے ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں کھڑا کرنے کے لیے اپنےآپ کو قربان کردیا۔ آج دنیا بھر میں تھائی مساج کر ذریعے لو گ اپنا علاج کروا تے ہیں۔

اور ہمارے اسپیشل جڑی بوٹیوں سےبنے ہوئے مختلف تیلوں کی دنیا بھر میں مانگ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ ہم ایک محنتی اور جفاکش قوم ہے ہم نے اپنی صنعتوں کو ترقی دی اور سیاحت کو فروغ دیا ہے اور اب ہمیں اطمینان ہے کہ ہم نے اپنے مستقبل کو محفوظ کرلیا ہے۔ ہم نے اپنے ملک کی ترقی کے لیے جو کچھ بھی کیا ہے ہمیں اس پر کوئی شرمندگی نہیں بلکہ فخر ہے اور اب امید ہے کہ ہمارا ملک تھائی لینڈ بھی بہت جلد ترقی یافتہ ملکوں کی فہر ست میں شامل ہوجائے گا۔ جب ہماری عورتوں نے د ن رات مساج سے علاج کے پرانے طریقوں کوکیسے نئے انداز میں ڈھالا۔ آپ کےلیے وہ طوائفیں ہوسکتی ہیں۔

مگر ہمارے لیے وہ عظیم خواتین ہیں۔ شدت جذبات سے اس کا چہر ہ سرخ ہوگیا تھا۔ میں نے طنزیہ لہجے میں کہا”یعنی تمہار ا مطلب ہے کہ دنیا میں وہی قو میں ترقی کرتی ہیں جن کی عورتوں اپنے آپ کو بیچ دیں؟اس نے ملامت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور بولی ۔ غلط ! بالکل غلط،معاف کیجیے گا ،آپ کی سوچ بہت معمولی اورسطحی ہے۔ آپ نہیں جانتی کہ پوری دنیا شاید ہی کوئی جگہ ایسی ہو جہاں عورتوں کی جسم فروشی کی گنجائش نہ ہو۔ مگر قوموں کی ترقی کاراز عورتوں کی جسم فروشی پر نہیں۔ بلکہ اپنے ملک سے محبت۔ اپنے آپ سے مخلص ہونے اور محبت کرنے سے ہے۔

ایک لمبا سانس لینے کے بعد وہ پھر سے بولی برا نہ مانیں تو آپ سے ایک بات کہوں۔ میں نے آہستہ سے سر کے اشارے سے اس کو اپنی بات کہنے کی اجازت دی۔ وہ بولی !اگر آپ کے پاس وقت ہو تو ان باتوں پر ضرور غور کیجیے گا کہ آپ کے ملک میں لاتعداد وسائل ہونے کے باوجود آپ کے ملک کا ہر شہری بین الاقوامی قرضوں کے بوجھ تلے کیوں دبا ہوا ہے؟ ملک میں جمہوری حکومت کےہوتے ہوئے بھی امن وامان کیں نہیں ؟ ایک ہی مذہب کے پیرو کا ر ہونے کے باوجود آپ لوگوں کی عبادت گاہیں کیوں محفوظ نہیں؟ زرعی ملک ہونے کے باوجود بھی آپ کا کسان بھو ک اور غربت کی سب سے نچلی سطح پر کیوں ہے؟ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی اور قدرتی مناظر سے مالا مال ہونے

کے باوجود سیاح آپ کے ملک کا رخ کیوں نہیں کرتے ؟ یہ تو بس چند موٹی موٹی باتیں ہیں اگر غور کریں گی تو اندازہ ہوگا کہ آپ کے ملک کے نام نہاد عزت دار سیاسی ، رہنماؤں مذہبی پیشواؤں افسر شاہی اور تمام صاحب اختیار نے عوام کو قو میتوں ، صوبوں ، زبانوں اور فرقوں میں بانٹ دیا۔ طوائف کے بارے میں عمومی طور پر یہی رائے پائی جاتی ہے۔ کہ وہ اپنی اداؤں سے نخروں سے اور جسمانی نشیب وفراز سے تماش بین کو لوٹتی ہے۔ اسی تعریف کے پس منظر میں اگر آپ غور کریں تو آپ کو اس بات کا احساس ہوگا۔ کہ اصلی اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتی جہاز کےپہوں نے زمین کو چھوا۔

اور ایک جھٹکاسا محسوس ہوا مگر جہاز کا یہ جھٹکا اس لڑکی کی باتوں کے جھٹکوں کے آگے مجھے بہت معمولی سا محسو س ہوا۔ جہاز کے رکتے ہی ایک افراتفری سی مچ گئی وہ بھی کھڑی ہوئی اور اپنا سامان نکالنے لگی۔ اس سے پہلے کہ وہ باہر کی جانب بڑھتی میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا ! وہ میرا سوال سمجھ نہ پائی میں نے ہلکے سے کہا اپناجملہ مکمل کرو وہ سوچتے ہوئی بولی” کون ساجملہ ” میں نے ڈرتے ڈرتے کہ اصلی کے آگے تم کیا کہنا چاہتی تھیں وہ طنز یہ انداز میں ہنسی اپنے کاندھوں پر ینگ لٹکایا اور مڑ کر بولی “اصلی طوائف کون ہے”؟؟

Sharing is caring!

Comments are closed.