مسلمانوں اپنی بیوی کے ساتھ یہ غلط کام کبھی نہ کرنا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن اگر آپ کسی ایسی عورت کو طلاق دے دیں کہ نکاح تو ہو گیا لیکن ابھی آپ نے اس کو بیوی نہیں بنایا وقد فرضتم لھن فریضہ مہر بھی مقرر کیا ہوا ہے فنصف مافرضتم اگر آپ نے طلاق دینی بھی ہے تو نکاح تو ہوگیا ہے جو آپ نے مہر مقرر کیا ہے آدھا اسے دے دو الا ان یعفون او یعفوالذی بیدہ عقدۃ النکاح لیکن اگر عورت کچھ لینے سے انکار ہی کر دے کہ میں نے چھوڑا یا جس نے نکاح کیا ہے وہی کہے کہ آدھا نہیں میں سارا ہی دیتا ہوں تو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے لوگ کہتے ہیں نہیں تقوے کے زیادہ قریب ہے لیکن پیسے کا حساب لینا ہے جو گفٹ بھی دیئے تھے وہ بھی واپس لینے ہیں کیونکہ رشتہ ٹوٹ گیا قرآن کہہ رہا ہے کہ تقوے کے قریب یہ ہے کہ جب انسان سے تمہارا تعلق نہیں رہا پیسے کی کیا قیمت ہے یہ تو ویسے ہی نیچ حرکت ہے کہ تم نے کس خوشی استقبال احترام واکرام و تکریم و تبجیل کی وجہ سے تحفہ پیش کیا ہو اور پھر جب رشتہ ختم کرو

تو تحفہ واپس طلب کرو العائد فی ھبتہ کالکلب یعود علی کوئی شخص تحفہ اور گفٹ دے کر اگر واپس لیتا ہے رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ تو ایسا ہے جیسے کتا قے کر کے دوبارہ اسے چاٹ لیتا ہے ولیس لنامثل السوء ساتھ ہی فرمایا یہ بری مثالیں ہمارے انسانوں کے لئے نہیں ہونی چاہئے۔نکاح مرد وزن کے درمیان ایک معاہدہ ہے ،اس کی رو سے عورت خود کو بیوی کی حیثیت سے مرد کے حوالے کردیتی ہے ۔اور مرد اس کے عوض میں کچھ مال وغیرہ اس کے حوالے کرتا ہے،

جسے مہر کہا جاتا ہے ۔اب دونوں پر فرض ہے کہ وہ اس معاہد ہ کے تحت اپنی زندگی کے معاملات سرانجام دیں،حتی کہ موت انہیں ایک دوسرے سے جدا کردے ۔یہی زوجین کی زندگی ہے اور یہی نکاح کا مقصد ہے ۔لیکن زندگی میں کبھی ایسا موڑ بھی آجاتا ہے کہ ان دونوں کا شوہر اور بیوی کی حیثیت سے اکٹھے رہنا ناممکن ہوجاتا ہے اور جدائی ہی میں عافیت ہوتی ہے ۔اسے شریعت کی زبان میں طلاق کہا جاتاہے۔طلاق کی ضرورت کبھی مرد محسوس کرتا ہے اور کبھی عورت ۔اب فریقین میں سے جو شخص بھی ا س معاہدہ سے الگ ہونا چا ہے اسے اجازت ہے ، لیکن مہراس فریق کا حق ہوگا جو معاہدے کو نبھانے پر آمادہ ہے ۔

اب اگر مرد طلاق دے کر بیوی کو الگ کرنا چاہے تو اس کیلئے لازم ہے کہ وہ طلاق دیتے ہوئے اس سے حق مہر کا مال واپس نہ لے ۔ کیونکہ اس نے جس چیز کے عوض مہر دیا تھا وہ اس نے حاصل کرلی ہے ۔اور عورت نے جس معاہدہ کی روسے مہر وصول کیا تھا وہ اس نے نبھانے کی کوشش کی ہے اور مزید نبھانے پر آمادہ ہے ۔لہذا مرد کے طلاق دینے کی صورت میں مال مہر عورت کا ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے :طلاق [رجعی ] دو مرتبہ ہے ،اس کے بعد یاتو نیک نیتی کے ساتھ بیوی کو روک رکھو ، یا بھلائی کے ساتھ اسے چھوڑ دو ،اس صورت میں تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم نے جو کچھ انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ واپس لویہ تو ہوا اس عورت کا معاملہ جو اپنے خاوند کے ساتھ رہی اور دونوں ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے ۔لیکن اگر خاوند نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو ان کا معاملہ اس سےمختلف ہے ۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین

Sharing is caring!

Comments are closed.