
ابھی پہنچنے والی ہی ہوگی وہ لڑکی ارے یار جو ہم چاہتے ہیں وہی ہوگا۔۔؟؟؟
گلی سے نکل کر وہ چوک تک پہنچی ۔ بازار کے اس چوک میں ہمیشہ سے بھی زیادہ رش تھا۔ اس کی وجہ رمضان بازار تھا۔ جو بازار کے بالکل وسط میں لگا تھا۔ سیکڑوں کے حساب سے لوگ خریداری کررہے تھے۔ ا س نے نقاب سے جھانکتی آنکھیں ادھر ادھر گھمائیں ۔ کسی رکشے کی تلاش میں گرمی کازور آہستہ آہستہ کم ہورہاتھا۔ لیکن پیاس کی شدت بڑھتی جارہی تھی۔ وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے لگی۔ اور چپکے سے ادھر ادھر بھی دیکھنے لگی۔ وہ ڈر رہی تھی۔ کوئی اسے یہاں دیکھ نہ لے مگر وہ جانتی تھی ۔
ابو اس وقت اپنی دکان پر ہوں گے ۔ اور چھوٹا بھائی محلے میں کرکٹ کھیل رہا ہوگا لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنے ڈر کو قابو نہیں کرپارہی تھی۔ پسینہ گرمی کی وجہ سے آرہا تھا۔ یا ڈر کی وجہ سے وہ سمجھ نہیں سکی۔ بالآخر اسے ایک رکشہ نظر آیا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا اور نقاب کی چادر سنبھالتے ہوئے بیٹھ گئی۔ رکشہ اسٹارٹ ہو کر چلنے لگا اس نے ٹھنڈی سانس خارج کی اور پرس نمبر ملا کر ٹائم دیکھنے لگی۔ شام کے چار بجے وہ جس سے ملنے جارہی تھی۔ اس کے ساتھ دل کارشتہ تھا۔ اس کا جو زندگی تھی۔ اس کی رافیل ۔ نامی وہ جادوگر دوسال سے اس پر جادو کیے ہوئے تھا۔
اس کی حواسوں پر سوار تھا۔ وہ گھر والوں سے چھپ کر اسی سے ملنے جارہی تھی۔ افطاری میں ابھی وقت تھا اور وہ بس پانچ منٹ کے لیے جارہی تھی۔ رافیل نے اپنی قسم دے کر اسے ملنے کے لیے بلایا۔ اس وجہ سے وہ انکار نہیں کرسکی۔ وہ بری لڑکی نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس کی نیت میں کوئی برائی تھی۔ وہ قرآن پاکی حافظہ تھی۔ اور روزے نما ز پابندی سے ادا کرتی۔ وہ ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی ۔ وہ ایک عام معمولی سی سادہ سی لڑکی تھی۔ اسے میک اپ سجنے سنورنے سے غرض نہیں تھا۔ لیکن اس محبت نے اسے سب سکھادیا۔ آج بھی وہ ہلا میک اپ کیے ہوئے تھی۔ امی سے وہ نادیہ کے گھر جانے کا جھ وٹ بول کر آئی تھی۔ اس نے روزے کا ساتھ جھ وٹ کیوں بولا۔ اس کاجواب محبت ہے۔
صرف محبت جو دل دل میں فرق پید اکرتا ہے۔ رافیل سے اس کی پہچان دو سال قبل شروع ہوئی وہ بھی فیس بک پر۔ اسے فیس بک کا زیادہ شوق نہیں تھا۔ لیکن چونکہ اس میں دینی علم بھی ہوتا ہے اس لیے وہ فیس بک میں دلچسپی لینے لگی۔ اس نے مولانا طارق جمیل اور کچھ اسلامی گروپ اور پیجز جوائن کیے ہوئے تھے۔ وہ کافی کچھ سیکھ رہی تھی۔ اوراسے بہت علم بھی حاصل ہورہاتھا۔ موبائل اسے کالج کےوقت ابو نے لے کر دیا تھا۔ انہوں نے موبائل دیتے وقت یہ نہیں کہا غلط راستے پر مت جانا کیونکہ وہ اپنی عروج کوجانتے تھے اور انہیں اپنی بیٹی پر بھروسہ ہمیشہ سے تھا۔
فیس بک پر اسے سات دن ہی ہوئے تھے ایک دن اس نے کسی خوبصورت تقریر پر صرف نائس کا کمنٹ دیا۔ ایک معمولی لفظ ایک حقیر سا کمنٹ جس کی کوئی اوقات نہیں وہ آنے والے وقتوں میں عروج احمد کے لیے بن سکتا ہے۔ اس کا اندازہ اسے نہ توکبھی تھا اور نہ ہی ہوسکتا تھا۔ آدھے گھنٹے کے بعد اس کمنٹ پر رپلائی آیا۔ کہاں سے ہیں آپ؟ اس نے رپلائی دیکھا ایک مرد کا کمنٹ اس نے سوچا جواب دوں یا نا دوں ؟ پھر کچھ سوچ کر اس نے جواب دیا۔ ملتا ن سے ۔ دوسرا رپلائی فوراً آیا۔ کیا کرتی ہیں ؟ ایم ایس سی اس نے جواب دیا۔ اور یہ کمنٹ رپلائی سے ان باکس میں داخل ہوا۔ اور ان باکس میں ایک ناختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا ۔ صبح سے شام او رشام سے صبح کیا کررہی ہو؟
آپ کی باتیں اچھی ہیں۔ میں نے آپ جیسی لڑکی نہیں دیکھی۔ یہ وہ جملے تھے جو عروج کوروز پڑھنے کو ملتے ۔ ایک وقت آیا جب وہ گہرے دوست بن گئے۔ اور کچھ دن بعد رافیل خوبصورت شاعری بھیجنے لگا جن میں سر فہر ست یہ شعرتھا ۔ جان تمنا، جا ن جگر ہو ، تو خواب ہے میرا، تومیری نظر ہے ، جوہورہا ہے ، یہ دل بے خبر ہے۔ وہ نادان نہیں تھی جو اس شعر کا مطلب نہ سمجھتی ۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب وہ دل کے سامنے ہار گئی ۔ اور اپنے آپ سے اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئی کہ وہ رافیل جمال سے محبت کرنے لگی ہے۔ رافیل بھی اسے ٹوٹ کر چاہتاتھا۔ وہ اس سے ساری رات باتیں کرتی، اس کی آواز سنتی اور جب کبھی اسے امتحان کی وجہ جاگنا پڑتا تو رافیل بھی نہیں سوتاتھا۔
اس دن وہ دو سال سے اس سے رابطے میں تھی۔ اب رافیل نے شادی کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن اس سے پہلے وہ ایک بار اس سے ملنا چاہتا تھا۔ دوسالوں میں پہلی بار اس نے یہ فرمائش کی وہ بھی اپنی قسم دے کر تو عروج انکا ر نہیں کرسکی۔ وہ سب سے چھپ کر فقط پانچ منٹ کے لیے اسے دیکھنے جارہی تھی۔ وہ خوش بھی تھی ۔ اور ڈر بھی رہی تھی۔ رافیل جس اپار ٹمنٹ میں رہتا ہے وہ ایڈریس اور روم نمبر اسے میسیج کردیا تھا۔ رکشے والے کو کرایا دے کر وہ اتری۔
اورسامنے اس عمارت کودیکھا جس پر اس وقت خاموشی کا راج تھا۔ سیڑھیاں چوڑی اور مخروطی تھیں۔ وہ پرس اور موبائل ہاتھوں میں قابو کیے اوپر کی طرف جانے لگی رافیل نے جو روم نمبر بتایا تھا۔ وہ کچھ اوپر تھا اس نے موبائل کو پرس میں ڈالا۔ کمرے کےپاس پہنچ کر اس نے دروازے پر دستک دینے کے لیے ہاتھ بڑھائے لیکن اسے اپنے ہاتھ روکنے پڑے۔ اندر سے رافیل کی آواز سنائی دی ۔ ابھی پہنچنے والی ہی ہوگی وہ لڑکی۔ اس نے ہاتھ کو پیچھے کھینچ لیا۔ ارے یار جو ہم چاہتے ہیں وہی ہوگا ڈونٹ وری۔ آواز پھر سے آئی اس کی ریڑ ھ کی ہڈی میں سردی کی ایک لہر پیدا ہوگئی؛۔ ہاں ہاں سارا انتظام ہوچکا ہے۔ دیوا ر پر خفیہ کیمرے لگادیے ہیں۔ آواز رافیل کی تھی۔ لیکن لہجہ اجنبی تھا۔
سب اجنبی ہوتا جارہا تھا۔ آہستہ آہستہ سب کچھ تحلیل ہونے والا تھا۔ جیسے وہ خود تحلیل ہورہی تھی۔ پانی میں ابھرنے والے ایک بلبلے کی طرح۔۔کیا صور اسرافیل پھونکا جارہا ہے۔ قیامت آنے والی ہے کیا قیامت تو آچکی تھی اس سے بھی زیادہ خوفناک ہوگا قیا مت کا منظر ۔شیشے کا تاج محل ٹوٹ کر بکھر گیا۔ جیسے اس کے وجود کو دھماکے سے اڑ ا دیا گیا تھا۔ اندر کھڑا شخص کون تھا رافیل جمال یا کوئی اور۔ آواز اسی کی تھی لیکن لہجہ؟ اور وہ جملے جو کانوں میں پھگلتا ہو ا سیسہ بن کر پڑ رہے تھے۔ کب ؟ کہاں ؟ کونسی ؟ غلطی کی تھی اس نے جواسے زندگی اس موڑ پر لے آئی۔
محبت! کیا محبت واقعی ہی گن اہ تھا؟ وہ کچھ بھی نہیں دیکھ پارہی تھی۔ اس کا دل دماغ جوسو چ رہے تھے وہ سچ تھا۔ یا جو وہ کھلی آنکھوں سے سامنے دیکھ رہی تھی۔ وہ سچ تھا؟ وہ منظر تحلیل ہوتا جارہاتھا ۔ سب کچھ ایک خواب لگ رہاتھا۔ سناٹے اترتا جارہاتھا۔ اور اسی سنا ٹے میں وہ لمحے بھر کے لیے لوٹ آئی حقیقت کی طرف اس نے فوراً آنکھیں میچ لیں۔ اور بھاگتی ہوئی پارٹمنٹ کی سیڑھیاں تیز ی سے ا ترتی نیچے جار ہی تھی۔ بنا دیکھے۔ وہ پیدل گھر کی طرف چلنے لگی۔ آتے وقت ہوش تھا۔ خواب تھے ۔ محبت تھی ۔ خوشی تھی۔ لیکن اب کوئی احساس نہیں تھا۔ دو سا ل کی اس محبت کا کا سچ یہ تھا۔
وہ اس کے ساتھ کیا کرنے والا تھا روزے کے ساتھ۔ خفیہ کیمرے ؟ اور وہ اپنے دوستو ں کو بھی بلا رہاتھا۔ اور اگر وہ ایسا کرتا تو کیا باقی رہ جاتا۔ اس کا باپ جو اس پر فخر کرتا تھا۔ وہ اس سے نف رت کرتے ۔ اس حافظ قرآن لڑکی کی وڈیو منٹو ں میں نہیں سیکنڈوں میں ساری دنیا میں پھیل جاتی۔ سوشل میڈیا پراس عزت دار گھر انے کی بیٹی یوں غلط دکھائی جاتی۔ تب کیا باقی رہ جاتا۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی اس نے سکرین پر نمبر دیکھا رافیل کا نمبر۔ اس نے غص ے سے اس کی کال اٹینڈ کی ۔ کہاں ہوتم جان کب آرہی ہو؟ میں اب کبھی نہیں آؤں گی۔ وہ روتے ہوئے بولی ۔ کیوں جان کیا ہوا؟
وہ حیران تھا۔ تم کیا کرنا چاہتے تھے میری ویڈیو بنانا چاہتے تھے ۔ مجھے پوری دنیا میں نن گا کرنا چاہتے تھے۔ وہ کچھ لمحے بول نہ سکا۔ وہ جان سوری دراصل صرف ٹائم پاس کے لیے؟ ٹائم پاس ؟ وہ چلائی ہم لڑکیوں کوتم مرد صرف ٹائم پاس ہی کیوں سمجھتے ہو۔ کسی باپ کی بیٹی تمہاری نظر میں صرف ٹائم پاس ہے ۔ کسی کی عزت کی دھجیاں اڑانا صرف ٹائم پاس ہے۔ دیکھو عروج میر ی بات ۔ اس نے رافیل کی بات کاٹ دی۔ نہیں رافیل پلیز اور جھ وٹ نہیں ۔ تم نے تو ویسے بھی مجھے کسی قابل نہیں چھوڑا۔ تمہاری شر سے اللہ نے مجھے بچ لیا ورنہ تم کیا کرتے ؟ مجھے ننگ ے کرتے یا بلیک میل ؟
تم مجھےذلت دینا چاہتے تھے صرف اس لیے کہ میں نے تم سے محبت کی تم پر اعتبا ر کیا۔ عزت ذلت دینے والے تم کون ہوتے ہو یہ حق اللہ تعالیٰ کا حاصل ہے اور تم خد ا نہیں ہو؟ واقعی تم خدا نہیں ہو؟ خدا کو ترس آتا ہے تم تو وہ بھی نہیں کررہے تھے۔ خدا تو روزانہ کروڑوں لوگوں کی کروڑوں غلطیاں معا ف کرتا ہے۔ اور تم ایک انسان ہو کر دوسرے انسانوں کو زمین میں دفن کرنے والوں میں سے ہو۔ اب کبھی بات کرنا مجھ سے سکتے ہوئے اس نے موبائل سے سم نکال کر دور پھینک دیاور وہیں سڑ ک پر سجدے میں گرگئی۔
اگروہ ویڈیو پھیل جاتی تب کیا ہوتا؟ کیا باقی رہ جاتا۔ اور اگر اس کے وہ دوست سب مل کر زیادتی کرتے تو کیا فرق رہ جاتا اس میں طوائف میں ۔ کون یاد کرتا وہ حافظ قرآن ہے ۔ کتنی نیک ہے لوگ تو بس اس ایک ویڈیو کو ہی یاد کرتے۔ آس پاس گزرتے ۔ لوگ اسے پاگل سمجھ رہے تھے ۔ لیکن وہ پاگل نہیں تھی اس وقت تو بالکل بھی نہیں۔ وہ رو رہی تھی رافیل کے دھو کے کے لیے اس لیے کہ اس نے ایک انسان کی محبت پر کیوں بھروسہ کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسے اتنے بڑے گن اہ سے بچا لیا۔