
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم کسی کو چاہو اور وہ تمہیں ٹھکرادے ؟
حضر ت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم کسی کو چاہو اور وہ تمہیں ٹھکرادے تو یہ اس کی بدنصیبی ہے اس کے بعد اس کو زبردستی اپنانا چاہو تو یہ تمہارے نفس کی ذلت ہے۔ نفس کو اچھے کام میں مشغول رکھو ورنہ نفس ایسے کاموں میں لگا دے گا جو نہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ حضر ت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر کسی انسان کی قیمت طے کرنا چاہیں تو اس کا معیار کیا ہوسکتا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مختصر جواب دیا: یعنی جس شخص میں جتنا احساس ذمہ داری ہے وہ اتنا ہی قیمتی ہے۔
حضر ت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بھلائی چار چیزوں میں ہے گواہی ، خاموشی ، بینائی اور حرکت ۔ ہر ایسی گفتگو جو ذکر خدا سے خالی ہو لغو ہے ہر وہ خاموشی جو فکر کے لیے اختیار نہ کی گئی ہو سہو ہے۔ ہر وہ نگاہ جس میں عبرت نہ ہو غفلت ہے اور ہر حرکت جو اللہ کی عبادت کے لیے نہ ہو سستی اور کمزوری ہے۔ چپ سے بڑی کوئی بددعا نہیں انسان جب بولتا ہے تو قدرت خاموش رہتی ہے۔ اور جب بندہ خاموش ہوجاتا ہے تو قدرت انتقام لیتی ہے۔ اور بے شک اس کا انتقام بہت برا ہوتا ہے۔
فت نہ و فساد میں اس طرح رہو جس طرح اونٹ کا وہ بچہ جس نے ابھی اپنی عمر کے دو سال ختم کئے ہوں کہ نہ تو اس کی پیٹھ پر سواری کی جاسکتی ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جاسکتا ہے۔جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا ,اس نے اپنے کو سبک کیا اور جس نے اپنی پریشان حالی کا اظہار کیا وہ ذلت پر آمادہ ہوگیا ,اور جس نے اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھا ,اس نے خود اپنی بے وقعتی کا سامان کر لیا۔ بخل ننگ و عار ہے اور بزدلی نقص و عیب ہے اورغربت مرد زیرک و دانا کی زبان کو دلائل کی قوت دکھانے سے عاجز بنا دیتی ہے۔ اور مفلس اپنے شہرمیں رہ کر بھی غریب الوطن ہوتا ہے ۔
اور عجز ودرماندگی مصیبت ہے اور صبر شکیبائی شجاعت ہے اور دنیا سے بے تعلقی بڑی دولت ہے اور پرہیز گاری ایک بڑی سپر ہے ۔ تسلیم و رضا بہترین مصاحب اور علم شریف ترین میراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہیں اور فکر صاف شفاف آئینہ ہے ۔عقلمند کا سینہ اس کے بھیدوں کا مخزن ہوتا ہے اور کشادہ روئی محبت و دوستی کا پھندا ہے اور تحمل و برد باری عیبوں کا مدفن ہے ۔ (یا اس فقرہ کے بجائے حضرت نے یہ فرمایا کہ )صلح صفائی عیبوں کو ڈھانپنے کا ذریعہ ہے ۔ جو شخص اپنے کو بہت پسند کرتا ہے وہ دوسروں کو ناپسند ہوجاتا ہے اور صدقہ کامیاب دوا ہے ,اور دنیا میں بندوں کے جو اعمال ہیں وہ آخرت میں ان کی آنکھوں کے سامنے ہوں گے۔یہ انسان تعجب کے قابل ہے
کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے اور گوش ت کے لوتھڑے سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے۔ جب دنیا (اپنی نعمتوں کو لے کر)کسی کی طرف بڑھتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اسے عاریت دے دیتی ہے ۔اور جب اس سے رخ موڑ لیتی ,تو خود اس کی خوبیاں بھی اس سے چھین لیتی ہے ۔لوگوں سے اس طریقہ سے ملو کہ اگر مرجاؤ تو تم پر روئیں اور زند ہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں ۔ دش من پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو ۔ لوگوں میں بہت درماندہ وہ ہے جو اپنی عمر میں کچھ بھلائی اپنے لیے نہ حاصل کرسکے ,اور اس سے بھی زیادہ درماندہ وہ ہے جو پاکر اسے کھو دے ۔جب تمہیں تھوڑی بہت نعمتیں حاصل ہوں تو ناشکری سے انہیں اپنے تک پہنچنے سے پہلے بھگا نہ دو ۔