اللہ کا واسطہ دعا مانگتے وقت یہ 4غلطیاں مت کریں انہی 4غلطیوں پر دعا قبول نہیں ہوتی

مؤمن بندہ کی کوئی ایسی دعا نہیں ہوتی جو قبول نہ ہو بات اتنی ہے کہ ہم نے کبھی قبولیت کے مفہوم کو سمجھا ہی نہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے مانگے اور اللہ تعالیٰ عطاء نہ کرے وہ عطاء کرتا ہے لیکن اپنے طریقے سے اپنی حکمت کے مطابق ہم آپ کو دعا کی قبولیت کے حوالہ سے تفصیل بتانے جارہے ہیں اور ایسی چار غلطیوں کے بارے میں بھی بتائیں گے جو ہماری قبولیت کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ شیخ تعجب دین ابن عطاء اللہ سکندری ؒ میں ایک حدیث ہے جس کا مفہو م ہے کہ ایک شخص دعا کیلئے ہاتھ اُٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کاکا م فوراً کردو کیونکہ اس کا ہاتھ پھیلانا۔

مجھے پسند نہیں اور ایک شخص دعا کیلئے ہاتھ اُٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے اس کا کام کرنے میں توفق کرو کیونکہ اس کا ہاتھ پھیلانا اور میرے سامنے اس کا گرگرانا مجھے اچھا لگتا ہے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو دعا کی توفیق عطاء فرماتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ ان بندوں کا اپنے سامنے سجدہ ریز ہونا ہاتھ پھیلانا رونا اور گر گرانا پسند ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوتا ہے ۔ اسی لیے کسی شخص کو دعا کی توفیق ہوجانا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلائے اس کو بدگمانی ہرگز نہیں ہونی چاہیے ۔ کہ اس کی دعا قبول ہوگی یا نہیں۔ بلکہ یقین رکھنا چاہیے کہ حق تعالیٰ اپنی رحمت سے دعا ضرور قبول فرمائے گا۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ مومن بندہ کی ہر دعا قبول ہوتی ہے ۔ اللہ مومن کی کسی دعا کو رد نہیں فرماتا ہے ۔ اللہ اس بندے کو اس دعا کے عیوض اپنی حکمت سے وہ عطاء کرتا ہے جو بندہ کے گمان سے بھی باہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ آپﷺ ارشاد فرماتے ہیں جو مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ او ر قطع تعلقی کی کوئی بات شامل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور عطاء فرماتا ہے ۔ یا اس کی دعا کا نتیجہ جلدی اس کی زندگی میں ظاہر ہو جاتی ہے ۔ یا اللہ تعالیٰ اس بندے سے کوئی مصیبت دور فرما دیتا ہے ۔ یا اس کیلئے آخرت میں بھلائی جمع کی جاتی ہے ہمارا یہ حال ہے کہ دعا کو ہم اسی وقت مقبول سمجھتے ہیں ہماری حاجت کی چیز ہمیں مل جاتی ہے ۔وہ چار غلطیاں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کیے بغیر دعا مانگنا ۔

دعا کے شروع اور آخر میں آپﷺ پر درود نہ بھیجنا۔اور قبولیت کے زمان ومکاں میں دعاؤں کا ماننا۔جب ہم یہ غلطیاں کریں گے تو ہماری دعا کی قبولیت پر فرق پڑے گا ایسی دعا کی طرف اللہ تعالیٰ توجہ نہیں فرماتا ایک طرف تو ہم خواہش کرتے ہیں ہماری دعا بالکل اسی طرح سے قبول ہو جیسے ہم چاہتے ہیں دعا ایسے طریقے سے مانگتے ہمیں خود پتا نہیں ہوتا ہم نے مانگا کیا ایسی دعا کو اللہ تعالیٰ کیسے قبول کرے گا۔ ایسی دعا تو دعا کہلانے کے قابل بھی نہیں رہتی ۔ بزرگا ن دین کا کہنا ہے کہ دعا مانگنے کا طریقہ بچے سے سیکھنا چاہیے کہ بچہ جب والدین سے کسی چیز کی ضد کربیٹھتا جب تک اس کو وہ چیز نہیں مل جاتی وہ اپنا رونا پیٹنا بند نہیں کرتا اور والدین کی جان تب چھوڑتا ہے جب اسکو مطلوبہ چیز مل جاتی ہے ۔ اور ہم ہیں نماز پڑھی اور جاتے جاتے دعا کے کچھ الفاظ پڑھ کر ہاتھ چہرے پر پھیر لیتے ہیں او ر لمبے لمبے شکوے اللہ کی ذات سے کرتے ہیں ہم بھی اللہ تعالیٰ سے ایسا یقین کرکے دیکھیں جیسے یقین بچے کو والدین پر ہوتا ہے اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی خواہش اسکے والدین ہی پوری کریں گے ۔

اسلیے باربار لگاتا ر مانگتا رہتا ہے ۔ اسی لیے ہمیں بھی چاہیے کہ پورے یقین کیساتھ اللہ تعالیٰ سے آداب کی رعایت رکھتے ہوئے دعامانگی جائے ۔دعامانگا طرق نہ کریں پھر دیکھیں کیسے دعائیں قبول ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا قاعدہ حضور ﷺ نے بتلایا کہ پہلے اسکی تعریف کی جائے اس کو اسکے پیارے ناموں سے پکارا جائے پھر حاجت رکھی جائے۔روایت میں آتا ہے جس دعا کیساتھ درود پڑھا جاتا ہے اس کے لیے آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔تیسری بڑی غلطی ہے جو دعا کی جاتی غفلت کیساتھ کی جاتی ہے اکثر اوقات ہمیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ ہم نے دعا میں کیا مانگا ہے ۔آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ غافل اور لاپرواہ دلوں کی دعا قبول نہیں فرماتا۔چوتھی یہ کہ قبولیت کے زمان یعنی اوقات اور مکان یعنی مکامات کی تلاش نہیں کرتے۔اس لیے ضروری ہے کہ ان اوقات اور مکامات کے بارے میں جانا جائے اور ان اوقات کے وقت دوران دعا کی کثرت کی جائے تاکہ ہماری دعاؤں کو شرف قبولیت نصیب ہو۔

Sharing is caring!

Comments are closed.