
غریب لڑکے کی کہانی
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ کسی گاؤں میں ایک لڑکا رہتا تھا۔ اس کے ماں باپ انتہائی غریب تھے اور بڑی مشکل سے گزر اوقات ہوتا تھا۔ اس لڑکے کو پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن وسائل کی کمی کے باعث وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھنے سے قاصر تھا۔ خود غریبی کی زندگی گزار رہا تھا اس لئے غرییوں کے درد سے باخوبی آگاہ تھا۔ جب گاؤں کے غریب لوگوں کو مفلسی کی حالت میں بنا علاج کے مرتے دیکھتا
تو ربُ العالمین کی بارگاہ میں دعا کرتا کہ اللہ میری مدد فرما کہ میں ڈاکڑ بن جاؤں اور ان غریب لوگوں کی مدد کر سکوں۔ بوڑھے ماں باپ کی حالت کو دیکھتا تو سکول سے آتے ہی ان کے ساتھ کام میں جُت جاتا، آخر وہ دن آیا جب ماں باپ کے وسائل اسے تعلیم دلانے کے لئے ختم ہو گئے تو وہ اپنی ہمت ہار بیٹھا اور سکول چھوڑ دیا۔ دن رات اپنے ماں باپ کی خدمت جوئی میں لگا رہتا اور ان کے ساتھ کھیتوں میں کام کرواتا۔ آخر ایک دن ایسا آیا جب اس کے ماں باپ کسی موذی مرض میں مبتلا ہو گئے۔ اتنے پیسے نہ تھے کہ علاج کروا سکتا۔ پیسوں کی بھیک مانگنے گاؤں کے چودھری کے پاس گیا لیکن اس نے اُسے حقیر جان کر اپنے حویلی سے بے دخل کر دیا۔ وہ ننھا لڑکا آسمان کی طرف منہ کر کے کچھ پڑھتا جیسے کہہ رہا ہو کی ”اے مالک میں تیری رضاؤں پہ راضی ہوں، میں ان تکلیفوں کو تیری رضا اور امتحان سمجھ کر صبر کرتا ہوں۔” آخر وہ ننھا لڑکا اپنے ماں باپ کو لے کر شہر کے کسی ہسپتال میں پہنچا۔ اتنے پیسے تھے نہیں کہ علاج کراتا، ڈاکٹرز سے روتے بلکتے التجائیں کرتا رہا لیکن ہسپتال کے باشندوں نے دھکے دے کر ہسپتال سے باہر نکال دیا اور اس کے ماں باپ وہیں اُس کے ہاتھوں میں دم توڑ گئے۔ اس وقت اس ننھی جان پہ کیا بیتی ہو گی؟ اگر میں اپنے الفاظ سے اس کی کیفیت کو بیان کرنا چاہوں تو میرے الفاظ میں وہ طاقت نہیں کہ اسکے جذبات کو بیان کر سکیں۔
روتی بلکتی، سسکیوں کی صداؤن کے ساتھ وہ اپنے ماں باپ کی کمزور لاشوں کو لے کر گاؤں پہنچا اور ایسے ہی گمنام انسانوں کی طرح اسکے ماں باپ کے جسموں کو خاک کے سپرد کر دیا گیا۔ غموں کا پہاڑ ٹوٹ جانے باوجود اس نے اپنے رب سے شکوہ کرنا مناسب نہ سمجھا اور ارادہ کر لیا کہ وہ ایک دن ڈاکڑ ضرور بنے گا۔ پھر اس نے سکول جانا شروع کر دیا۔ گرمیوں کے دن تھے اور ہر شخص پیاس کی شدت سے نڈھال ہوتا، وہ بچہ سکول سے آتے ہی 20 پیسے کی برف خریدتا اور بالٹی میں پانی بھر کر اس میں برف ڈال لیتا اور ریلوے سٹیشن پر جا کر 25 پیسے کا ایک گلاس فروخت کرتا۔ ایسے ہی وقت گزرتا گیا۔ وہ اپنی اعلٰی تعلیم کے لئے اپنے پیسوں کی سیونگ کرتا رہا۔
وقت کا بہاؤ تیز رفتاری سے چلتا رہا اور انہی 25 پیسے سے کی گئی زندگی کے آغاز اور زمانے کی ٹھوکروں نے اسے ملک کا ایک مایہ ناز برین سرجن بنا دیا۔ اور خود کو غریبوں کی خدمت میں وقف کر دیا۔ اور شہر میں ایک بڑا ہسپتال بنایا اور ہر مستحق فرد کے لئے مکل فری علاج کرتا اور اپنے مریضوں سے بہت پیار کیا کرتا اور ان سے کہتا کہ میرے ماں باپ کے لئے دعا کیا کریں۔ پھر اچانک قدرت نے اُسے ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا جس کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں اپنے ماں باپ کا وہ لاچار منظر سامنے آیا جو برسوں پہلے ہوا تھا۔ ایک دن گاؤں کے اُسی چودھری کا اکلوتا بیٹا زندگی اور موت کی کشمکش میں شہر کے ایک ہسپتال میں لایا گیا، اس کے برین میں رسولی تھی اور اس کے پاس زندگی کی چند گھڑیاں تھیں۔ چودھری اپنے بیٹے کو لے کر مارا مارا پھرتا رہا۔ علاج کے لئے اتنے پیسے مانگے جاتے کہ چودھری کی ہہنچ سے باہر ہوتے۔ آخر کسی نے بتایا کہ فلاں ہسپتال میں جاؤ وہاں ایک ڈاکٹر بہت نیک انسان ہے وہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ بڑا مہربان ہے۔ وہ چودھری آخر اسی نوجوان کے ہسپتال کی چوکھٹ پہ پہنچا جس کو اس چودھری نے برسوں پہلے اپنی چوکھٹ سے دھکے دے کر باہر نکال دیا تھا پر چودھری کو یہ خبر نہ تھی کہ آج اللہ نے اس کو اُسی نوجوان کی چوکھٹ پر بے یار و مدد گار لا کھڑا کیا۔
چودھری کو دیکھتے ہی اس رحم دل نوجوان ڈاکٹر نے پہچان لیا اور حوصلہ دیا کہ اللہ نے اگر آپ کے بچے کی زندگی لکھی ہے تو اسے کچھ نہیں ہو گا۔ یہ کہتا ہوا وہ فوراً آپریشن تھیٹر کی طرف بڑھا اور آٹھ گھنٹے کے کامیاب آپریشن کے بعد وہ آنکھوں میں آنسو لئے باہر آیا اور چودھری کو مبارک باد دی۔ چودھری بے اختیار ڈاکٹر سے لپٹ گیا جیسے کہہ رہا ہو کہ اس کے پاس شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔ ڈاکٹر حوصلہ دیتے ہوئے اپنے سٹاف ممبرز کی طرف مڑا اور ان سے چپکے سے کہہ دیا کہ ان صاحب سے کسی طرح کے اخراجات کی ڈیمانڈ نہ کرنا بلکہ ان کی ہر طرح سے مدد کرنا۔ چودھری اس نیک دل ڈاکڑ کے حسنِ سلوک سے اتنا متاثر ہوا کہ گاؤں واپس آ کر ہر شخص سے اس ڈاکٹر کی محبت اور خلوص کا قصہ بیان کرتا۔ لیکن اس کو یہ خبر نہ تھی کہ یہ وہی نوجوان تھا جس کو ٹھوکروں سے اپنے دروازے سے باہر دھکا دے دیا تھا۔ وہ نوجوان ڈاکٹر آپریشن کے بعد سیدھا مسجد گیا اور رب کی بارگاہ میں یوں عرض گزار ہوا:
”یا اللہ تو جانتا ہے میں تیری رضا کی خاطر تیرے بندوں سے محبت کرتا ہوں، تیری رضا کی خاطر ان کے کام آتا ہوں۔ تو مجھ سے راضی ہو جا۔ تو میرے والدین سے راضی ہو جا۔ اور میرے اس عمل کو میرے لئے روزِ قیامت بخشش بنانا۔ آمین۔ ” دوستو! ایسے ہوتے ہیں ڈاکٹرز۔ آج کل ہمارے ڈاکٹرز کو نہ جانے کیا ہو گیا کہ وہ غریب انسانوں کی کھالیں اتارتے ہیں۔ لیکن اس نوجوان رحم دل انسان جیسے ڈاکٹرز بھی ضرور دنیا میں موجود ہونگے۔ کاش ہمارے ڈاکٹرز میں اس رحم دل انسان جیسا ڈاکٹر موجود ہو جو دوسروں کے دکھ درد کو اللہ تعالٰی کی رضا کی خاطر سمجھ کر انہیں دور کر سکیں۔