نافر ما ن بیوی سے کیا سلوک کیا جا ئے

سب سے زیادہ جو اللہ کو نا پسند ہے وہ طلا ق ہے حلال میں وہ طلاق ہے ۔ حضرت علی سے آپ نے فر ما یا کہ علی طلاق دینے سے بچنا جب طلاق دی جاتی ہے تو اللہ کا عرش کانپ اٹھتا ہے جب بے وجہ طلاق دی جاتی ہے ضرورت کی وجہ سے اللہ نے رکھی ہے نہیں گزارا ہو رہا ہے ٹھیک ہے۔ تو اب ہمارے ہاں دو امتحان چل رہے ہیں۔ ایک جو زیادہ اپر کلاس ہے تھوڑا سا لڑکی لڑکے میں توڑ پھوڑ ہوئی طلاق دو طلاق دو ہمیں فارغ کر و یہ بھی غلط ہے اور ایک جو نیچے طبقہ ہے لڑکی پس پس کے مر جائے نہیں طلاق نہیں لینی ایتھے ہی گزارا کر۔ یہ دونوں باتیں بڑی نا جائز ہیں۔ بہت نا مناسب ہیں۔

اللہ نے طلاق اس لیے تو رکھی ہے کہ کہیں لڑکی ایسی بد تمیز ہوتی ہے کہ لڑکے کی زندگی حرام کر دیتی ہے اور اکثر یت سسرالی ماحول ایسا ہوتا ہے کہ اس بچی کی زندگی حرام ہو جاتی ہے وہ گھنٹوں رضائی میں سر دے کر روتی رہتی ہے اور ماں باپ سے کہتی ہے بس تم جتھے ڈولی اوتھوں ہی جنا زہ اٹھے یہ کیسی بے وقوفوں والی بات ہے۔ بھائی اس پر ظلم کر رہے ہیں زیادتی کر رہے ہیں بچی تیرا جگر ہے واپس لے آ واپس کیوں نہیں لاتے میں ان کو کہاں سے کھلاؤں گا میں ان کی شادی کہاں کروں گا یہ کاوٹ بن جاتی ہیں چاہے مر چاہے جی تو اس لیے میرے نبی ﷺ نے فر ما یا تمہیں بتاؤں سب سے اعلیٰ درجے کا صدقہ کیا ہے۔

سب سے اعلیٰ درجہ کا صدقہ کیا ہے جس بیٹی کی طلاق ہو جائے اور پھر وہ گھر واپس آجائے اس پر خرچ کر نا سب سے اعلیٰ ترین صدقہ ہے۔ میرے نبی نے ایک کنواری سے شادی باقی سب یا بیوی یا طلاق یافتہ یا بیوہ یا طلاق یافتہ ۔ ہمارا ہندو کلچر ہے ۔ بچی کو طلاق ہو جائے وہ سسک سسک کے مر جاتی ہے دیواروں کے ساتھ زندگی گزار لیتی ہے اس کا کوئی رشتہ نہیں آتا اور اگر کوئی بچہ ساتھ ہو تو پھر تو وہ بچاری نہ جیتی ہے نہ مرتی ہے میں چارٹ گیا ایک غریب ملک ہے اصل ان کی عرب ہے لیکن وہاں رہتے رہتے افریقی رنگ غالب آگیا ۔

ان کی شکلیں کالی ہیں نقش عربوں والے ہیں۔ وہاں جو حبشی ہیں ان کے کان ایسے ہوتے ہیں کوئی اللہ نے عجیب مخلوق بنا ئی ہے ہمیں شکر کی نعمت سے نوازنے کے لیے تمہیں بھی ایسا بنا سکتا تھا۔ تو وہاں پتہ چلا کہ بڑا بھائی اپنی بیوی کو طلاق دے دے نا تو چھوٹا بھائی عدت کے بعد اس لڑکی سے شادی کر لیتا ہے آٹھ بچوں کی ماں اگر بیوہ ہو جائے یا طلا ق ہو جائے تو عدت کے بعد فوراً آٹھ بچوں سمیت اس کی شادی ہو جاتی ہے ۔

Sharing is caring!

Comments are closed.