
گھر سے بھاگی مناہل اور اس کا گندہ عاشق
سکو ل کالج یونیورسٹی اس کی ساری تعلیم مکمل ہوچکی تھی بس آخری سمیسٹر کا رزلٹ آنا باقی تھا آجکل اسے کوئی کام نہیں تھا ۔ سوائے بوائے فرینڈ کے ساتھ فون پر لمبی چوڑی خوش گپیاں کرنے کے یونیورسٹی میں وہ کسی کو دل دے بیٹھی تھی روگ لگابیٹھی تھی۔ پچھلے کچھ دنوں سے اسکا بوائے فرینڈ اسے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے پر قائل کررہاتھا۔ محبت کے واسطے لمبی چوڑی دلیلیں گھڑ رہاتھا اپیلیں کررہاتھا وہ بالکل پاگل ہوچکی تھی ویسے بھی تو ماں باپ نے بھی میری شادی کرنی ہی ہے تب بھی تو مجھے گھرچھوڑنا ہی ہے ۔ ویسے بھی اب میں میچور ہوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں ۔ عاقلہ بالغہ ہوں اپنے فیصلے خود کر سکتی ہوں ویسے بھی وہ لڑکا میری محبت ہے والدین کو بتا دوں تو بھی وہ میر ی شادی اس سے کبھی نہیں ہونے دینگے ۔ کیونکہ وہ تو میرے لیے میرے کزن کو پسند کرتے ہیں۔ اس نے گھر سے بھاگنے کا بڑا فیصلہ کر لیا تھا۔ فیصلے سے اپنے بوائے فرینڈکو آگاہ کیا وہ خوشی سے چلایا یہ ہوئی نہ محبت ۔ گھر سے بھاگنے کےلیے پچھلی رات کا وقت طے پاگیا وہ چوری چھپے اپنے چند ضروری کپڑے اور چھوٹی موٹی چیزیں ینگ میں پیک کرکے مقررہ وقت کا بے چینی سے انتظار کرنے لگی اس دوران بوائے فرینڈ کی کال آگئی ۔ ماں نے کوئی زیور شیور بھی بنایا ہوگا وہ بھی ہاتھ میں کر لو۔ مشکل وقت میں کام آئے گا اچھا کچھ کرتی ہوں۔ اسے پتہ تھا کہ ماں نے اس کے لیے سونے کے زیورات بنا رکھے ہیں۔ وہ ماں کے کمرے سے زیورات نکالنے کی ترکیب سوچنے لگی۔ وقت بہت کم تھا وہ جیسے ہی ماں کے کمرے کی طرف بڑھی ۔ ماں کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آگئی ۔ ایک لمحے کےلیے وہ ماں کو سامنے دیکھ کر سکتے میں چلی گئی ۔ میری شہزادی اتنی رات گئے تم جاگتی پھرتی ہو اور یہ تیار ہوکر کہاں جارہی ہو وہ ہی تو بتانے آرہی تھی رات لیٹ فون آیا تھا۔ یونیورسٹی والوں نے ایمر جینسی کچھ کام سے بلایا ہے میری کچھ دوست بھی جارہی ہیں۔ آپ سورہی تھیں ۔ ڈسٹرب نہ ہوں اس لیے آپ کو اس وقت نہیں بتایا اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے جھوٹ گھڑ دیا تھا اچھا تم میرے کمرے میں ہی بیٹھو میں تمہارے لیے کچھ بنا کر لاتی ہوں۔ ماں کچن میں چلی گئی وہ ماں کے کمرے میں داخل ہوئی ۔ بہت اچھا موقع مل گیا ہے اس نے یہ سوچتے ہوئے جلدی سے پیٹی کا دروازہ کھولا تو سب سے پہلے اس کی نظر اپنے لیے بنے لال رنگ کے بہت پیارے لہنگے پرپڑی جو اس کی ماں نے خاص طورپر شادی والےدن کےلیے اس کی پسند سے بنوایاتھا ماں اکثر کہتی رہتی تھی۔ جب میری بیٹی اسے پہن کر دلہن بنے گی شہزادی لگے گی ۔ شہزادی ایک سے بڑھ کر ایک اچھا سوٹ بہترین بستر، ڈنرسیٹ، ٹی سیٹ اور نہ جانے کیاکیا سامنے آرہاتھا۔ بہت سی قیمتی اور خوبصورت چیزیں توایسی تھیں جو ماں نے چوری چوری بنا رکھیں تھیں ۔ جن کا علم اسے آج ہورہاتھا۔ چیزیں الٹ پلٹ کرتے کرتے آخر زیورات اس نے ڈھونڈ ہی نکالے لیکن اس کا دل و دماغ چکر ا کر رہ گیا تھا ۔ زیورات اس سے اٹھائے نہیں جارہے تھے۔ ا س نے کمرے میں نظریں دوڑائی تو دیکھا فریج مشینیں برتن سب کچھ اس کے لیے رکھا پڑا تھا۔ ایک ماں کے کمرے میں ایک دلہن کے کمرے میں ایک دلہن کا مکمل سامان پڑا تھا۔ ضمیر نے اسے جھنجوڑا وہ سوچوں میں گم ہوگئی ۔ ماں کی کوکھ سے جنم لینے سے لے کر اب تک ماں باپ نے میرے لیے کیا نہیں کیا کھانا پینا، پہناوا، پڑھائی لکھائی چھوٹی بڑی سب خواہشات اپنا خون پسینہ ایک کرکے سب ادھورا پورا کیا ۔ میرے اگلے گھر کا سامان تک بنادیا۔ اور میں بے فیض بے وفا کیا کر نے جارہی ہوں مار کر اپنے ماں باپ کو خود مرنے جارہی ہوں ۔ محبت کا سمندر گھر میں ہے۔ اور میں محبت کا دریا سر کرنے جا رہی ہوں ۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں ۔ اسے اپنی اعلیٰ تعلیم اپنی حماقتوں پر خوب رونا آرہاتھا۔ اس دوران ماں آگئیں۔ یہ لو میری شہزادی اپنا پسندیدہ پراٹھا کھاؤ اتنا سفر ہے ۔ یونیورسٹی کا میری شہزادی کو بھوک لگ جاتی ویسے بھی آخری دفعہ یونیورسٹی جارہی ہو ۔ سکول سے لے کر کالج یونیورسٹی تک تیر ی ماں نے آج تک تجھے بغیر ناشتے کے نہیں بھیجا آج اگر تو بغیر ناشتے کے چلی جاتی۔ تو تیری ماں کو مرتے دم تک اس بات کادکھ رہتا ۔ ماں کی بات سن کر بے اختیار وہ ماں کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ماں نے ماتھا چوم کر آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا میری شہزادی کیوں رورہی ہے۔ وہ نظریں چراتے ہوئے کہنے لگی ماں مجھ سے کتنی محبت کرتی ہو ناں؟ یہ بھی کوئی بات ہے ۔ اب ماں سے بڑھ کر بھی بھلاکوئی محبت کرسکتا ہے؟ اس دوران اس کے موبائل کی گھنٹی باربار بجنے لگی اس نے کال کاٹتے ہوئے میسج لکھا : سوری میں نہیں آسکتی اور کبھی نہیں آسکتی۔ کیونکہ مجھے میری محبت میرے گھر سے ہی مل گئی ہے۔ یہ جو ماں کی محبت ہوتی ہے۔ نہ یہ محبتوں کی ماں ہوتی ہے۔ تمہارا دلہن والا لہنگا تمہاری دلہے والی شیروانی تمہارے گھر میں ہی پڑی ہے۔ اس منہ کالا کرکے کورٹ کچہریوں میں پہننے کی بجائے اپنے ماں باپ کے گھر سے ہی پہنا کرو کیونکہ تم پر ان کا حق ہے جو بالکل برحق ہے۔