حضرت شاہ شمس تبریزؒعشق کےچند اصول

سچائی کا راستہ دراصل دل کا راستہ ہے۔ دماغ کانہیں ۔ اپنے دل کو اپنا اولین مرشد بناؤ، عقل کو نہیں ۔ اپنے نفس کا سامنا اور مقابلہ کرنے کےلیے دل کی مدد لو کیونکہ تمہاری روح پر ہی خدا کی معرفت کا نزول ہوتا ہے۔ عقل و دل ونگاہ کا مرشد اولین ہے۔ دنیاکے زیادہ تر مسائل الفاظ اور زبان کی کوتاہیوں اور غلط معنی اخذ کرنے سے جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ کبھی بھی الفاظ کی ظاہری سطح تک خو د کو محدود مت کرو۔ جب محبت اور عشق کے میدان میں قدم رکھتے ہیں۔ تو الفاظ بیان اور زبان واظہار اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔

وہ جو کسی لفظ سے بیان نہ ہوسکے، اس کو خاموشی سے ہی سمجھا جاتا ہے۔ ہم خدا کے بارے میں جو گمان رکھتے ہیں۔ وہ دراصل ہماری اپنی شخصیت کے بارے میں ہمارے گمان کاایک عکس ہوتا ہے۔ اگر خدا کے ذکر سے ذہن میں محض الزام اور خوف اور الزام تراشی ہمارے اپنےسینے کی گھٹن میں پنپ رہی ہے۔ اور اگر خدا ہمیں محبت اور شفقت سے چھلکتا ہوا دکھائی دے تو یقیناہم بھی محبت اور شفقت سے چھلک رہے ہیں۔ تم کائنات کی ہرشے اور ہر شخص میں خدا کی نشانیاں دیکھ سکتے ہو کیونکہ خدا صرف کسی مسجد، مندر یاکسی گرجے گھر تک محدود نہیں ہے۔

لیکن اگر پھر بھی تمہاری تسلی نہ ہوتوخدا کو کسی عاشق صادق کے دل میں ڈ ھونڈو۔اس بات پر پریشان مت ہو کہ راستہ کہاں لیکر جائے گا ، بلکہ اپنی توجہ اپنے پہلے قدم پر رکھو۔ یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ اور یہی سب سے مشکل کام ہے ۔ جب پہلا قدم اٹھالیا، تو پھر اس کے بعد ہر شے کو اپنے قدرتی انداز میں کام کرنے دو اور تم دیکھو گے کہ راستہ خو د بخود کھلتا جائے گا۔ بہاؤ کے ساتھ مت بہو، بلکہ خود ایک لہر بن جاؤ جس کا اپنا ایک بہاؤ ہوتا ہے۔ہرانسان ایک تشنہء تکمیل فن پار ہ ہے۔

جس کی تکمیل کےلیے خدا ہر انسان کے ساتھ داخلی اور خارجی طور پر مصروف کار ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ خدا ہم میں سے ہرایک کے ساتھ انفرادی سطح پر معاملہ کرتا ہے۔ کیونکہ انسانیت ایک بے حد لطیف اور نفیس مصوری کا شہکار ہے جس پر ثبت کیاجانے والا ہر ایک نقطہ پوری تصویر کے لیے یکسا ں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ زندگی میں جو بھی تبد یلی تمہارے راستے میں آئے، اس کے استقبال کےلیے تیار رہو، اسکی مزاحمت مت کرو بلکہ زندگی کو اس بات کا موقع دو کہ تم میں سے گذر کر اپنا راستہ بنا سکے ۔ اس بات کی فکر مت کرو کہ زندگی میں نشیب و فراز آرہے ہیں۔

تمہیں کیا پتہ کہ آنے والی تبدیلی تمہارے حق میں بہتر ہے یا موجودہ حالت؟ آسمان پر شاید اتنے ستارے نہ ہوں جتنے دنیا میں چھوٹے اور ناقص شیوخ پائے جاتے ہیں۔ تم کبھی بھی کسی سچے مرشد کو کسی ایسے مرشد سے مت ملانا جو نفس کا پچاری ہواور اپنی ذات کا اسیر ہو۔ ایک سچا مرشد کبھی بھی تمہیں اپنی ذات کا اسیر بنانے کو کشش نہیں کرے گا اور نہ ہو اپنے نفس کےلیے تم سے تابعداری اور تعریف و توصیف کا تقاضا کرے گا۔ بلکہ اس کے برعکس وہ تمہیں تمہاری اصل اور حقیقی شخصیت سے متعارف کروائے گا۔ سچے اور کامل مرشد تو کسی شیشے کی مانند شفاف ہوتے ہیں ۔

تا کہ خدا کا نور ان میں سے کامل طور پر چھن کر تم تک پہنچ سکے۔ عقل اور دل ، دو مختلف چیزیں ہیں۔ عقل لوگوں کوکسی نہ کسی بندھن میں جکڑتی ہے اور کسی چیز کو داؤ پر نہیں لگاتی ، دل ہر بندھن سے آزاد ہو کر اپنا آپ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ عقل ہمیشہ محتاط اور پھونک پھونک کر قدم رکھتی ہے۔ کہ دیکھو کسی کیفیت کا زیادہ اثر مت لینا۔ لیکن دل کہتا ہے کہ مت گھبراؤ ، ہمت کر و اور ڈوب جاؤ کیفیت میں ۔ عقل آسانی سے اپنا آپ فراموش نہیں کرتی جبکہ عشق تو بکھر جانے اور فنا ہوجانے کےلیے ہمہ وقت تیار ہے ۔

اور خزانے بھی تو ویرانوں میں لیے تلے ملتے ہیں۔ ایک شکستہ دل میں ہی تو خزانہ مدفون ہوتا ہے۔ صبر اس بات کا نام نہیں ہے کہ انسان عضو معطل ہوکر ہے۔ بے بسی کے ہاتھوں برداشت کے عمل سے گذرتا رہے ۔ بلکہ صبر کامطلب یہ ہے کہ انسان اتنا دور اندیش اور وسیع نگا ہ کا حامل ہو کہ معاملات کے انجام پرنظر رکھتے ہوئے رب پر بھروسہ رکھے۔ صبر کیا ہے؟ صبریہ ہے کہ جب تم کانٹے کو دیکھو تو تمہیں پھول بھی دکھائی دے۔ جب رات کے گھپ اند ھیرے پر نظر پڑے تو اس میں صبح صادق کا اجالا بھی دکھائی دے ۔ بے صبری یہ ہے کہ انسان اتنا کوتاہ بین اور کم نظر ہو کہ معاملے کے انجام پرنظر دالنےسے قاصر رہ جائے۔ عاشقان الہیٰ صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پہلی کے باریک چاند کو ماہ کامل میں تبدیل ہونےکے لیے کچھ وقت ضرور گذارنا پڑتا ہے۔

Sharing is caring!

Comments are closed.