خوش قسمت لوگ

مدینہ منورہ کی ایک تنگ گلی میں ایک فقیر بیٹھا کرتا تھا‘ ایک دن امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کا گزر اس گلی سے ہوا‘ آپؓ نے اس شخص کو نہیں دیکھا‘ آپؓ اپنے خیالوں میں گم کہیں جا رہے تھے‘اسی بے دھیانی میں آپ ؓ کا پاﺅں بے دھیانی میں اس فقیر کے پاﺅں کے اوپر آ گیافقیر غصہ میں چلایا‘ اے اندھے شخص‘ کیا تجھے نظر نہیں آتا؟ تو کن خیالوں میں گم چلا جارہا ہے کہ تجھے کمزور لوگ نظر ہی نہیں آتے‘ آپؓ نے اس کے غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے انتہائی نرمی اور انتہائی نرمی اور عاجزی سے جواب یا کہ بھائی! میں اندھا نہیں ہوںلیکن مجھ سے یہ غلطی ضرور ہوئی ہے‘ میں آپ کو دیکھ نہیں سکا‘ تم اللہ کے واسطے مجھے معاف کر دو۔سبحان اللہ! ہمارے اسلاف کا اخلاق کس قدر اچھا تھا‘ ان کے مقابلے میں کوئی کمزور بھی ہوتا ہے تو ان کے لہجے کی حلاوت اور مٹھاس میں مزید بہتری پیدا ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہربلند مرتبہ شخص عجزوانکساری کو پسند کرنے والااور دوسروں کی دلجوئی کرنے والا ہوتا ہے۔

ا س شخص کی مثال اس درخت کی سی ہوتی ہے جس پر جتنا زیادہ پھل لگتا ہے وہ اتنا ہی جھکتا چلا جاتا ہے۔جو لوگ کمزوروں کے ساتھ خوش اخلاقی اور عجزوانکساری سے پیش آتے ہیں وہ روز محشر سب سے خوش قسمت ہوں گے اور مغروروں کو بروزمحشر رسوائی کے سوا کچھ نہیں حاصل نہ ہوگا۔انسان جتنا بھی طاقتور اور رتبے والا ہو اور پھر اس بلند مرتبہ کے بعد وہ کسی کمزور کے غصے اور ناراضگی کو برداشت کر لے تو یہ حقیقتاً بڑی بات ہے‘اس نیکی کا اجرب بھی بہت زیادہ ہے‘ یہ حکایت سیدنا حضرت عمر فاروقؓ عظمت کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے ‘امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کی طبیعت کے متعلق تمام مورخین متفق ہیں کہ آپ جلالی تھے اور دین اسلام قبول کرنے سے قبل کوئی معمولی سی بات بھی برداشت نہ کرتے تھے‘ دین اسلام قبول کرنے کے بعد آپؓ کے لہجے میں حلاوت اور مٹھاس پیدا ہو گئی مگر اسلام دشمنوں کےلئے آپؓ کا لہجہ ویسا ہی جلالی اور سخت تھا۔

Sharing is caring!

Comments are closed.