آٹھ بندر

یہ درحقیقت ایک یو کے میں کیے جانے والے تجربے کی داستان ہے۔ انہوں نے ایک کمرے میں آٹھ بندر بند کر دیے۔ اس کمرے میں ایک سیڑھی لگا دی اور اس کی چھت پر کیلوں کا ایک گچھا باندھ دیا۔ جب بھی کوئی بندر اس کیلوں کے گچھے تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا تو

باقی تمام بندروں پر برف والا ٹھنڈا پانی سپرے کیا جاتا تھا۔ شروع کے دو چار دن تو اسی طرح سارے بندر باری باری اوپر چڑ ھ کر کیلے حاصل کرنے کی تگو دو میں لگے رہتے تھے لیکن کچھ دن بعد وہ سیکھ گئے اور اگر کوئی بھی بندر اوپر چھڑھنے لگتا تو باقی سارے بندر اس کو خوب پیٹتے تھے۔یہ سلسہ کافی دن ایسے ہی جاری رہا اور سب بندر سمجھ گئے اور پھر انھوں نے کیلوں کی طرف دیکھنا بھی بند کر دیا کیونکہ وہ اس کا انجام جانتے تھے۔ ایک دن سائنسدانوں کو کچھ سوجھا اور انہوں نے ان میں سے ایک بندر چڑیا گھر بھیج کر اس کی جگہ ایک نیا بندر اس کمرے میں باقی پرانے سات بندروں کے ساتھ ڈال دیا۔ جیسے ہی اس نے کیلے دیکھے اس کی تو باننچھیں کھل اٹھی۔۔

لگا سیدھا سیڑھی کی طرف بڑھنے، ابھی دو چار قدم ہی اوپر چڑھا ہو گا کہ سب بندروں نے اس کی خوب دھلائی کر ڈالی۔ کوئی تین چار دن وہ اسی طرح بار بار کوشش کرتا اور باقی بندروں سے اپنی روز خوب ٹھکائی کرواتا۔ آخر کار اس نے بھی توبہ کر لی۔ اب سائنسدانوں نے ایک اور پرانے بندر کی جگہ ایک نیا بندر ان میں شامل کر دیا۔ وہ بھی بالکل اسی طرح چار دن لگا رہا، پھر سب سے مار کھا کر اس نے بھی کیلوں کی تمنا چھوڑ دی۔ آہستہ آہستہ سائنس دانوں نے ان سب پرانے بندروں کی جگہ نئے بندر اس کمرے میں ڈال دیے لیکن ان سب کا وہی رویہ رہا کہ جیسے ہی کوئی ایک بھی سیڑھی کی اوڑھ بڑھتا، باقی سب مل کر اس کی خوب دھلائی کرتے۔ سائنسدانوں نے اب پانی کا چھڑ کاؤ بالکل بند کر دیا تھا لیکن

بندروں میں چونکہ ایک سوچ بن چکی تھی اور وہ اپنے پہلے کے تلخ تجربوں کے باعث بہت ڈرتے تھے تو وہ ابھی بھی کسی بندر کو اوپر نہیں چڑھنے دیتے تھے۔ یہی حال ہمارے لیڈروں کا ہے، جب کوئی آواز اٹھاتا ہے، اس کا ٹیٹوا ایسے عبرت ناک طریقے سے دباتے ہیں کہ باقی سب بھی ڈر سہم جاتے ہیں اور اس کے بعد کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ دوبارہ اپنی زبان پر سچ لائے ۔ بہت سے مذاہب بھی اسی فلاسفی کا شکار ہیں اور اپنے فالوئرز کو اسی طرح اچھا خاصہ ایکسپلائٹ کر رہے ہیں۔ رسم و روایات بھی اسی کا ایک حصہ ہیں۔ کسی کو نہیں پتہ کہ کیوں اس طرح چل رہے ہیں، بس ہمارے باپ دادا نے کہا تھا اور وہ ایسے ہی کرتے تھے تو ہم بھی اندھا دھن نکل پڑے

ان کے پیچھے پیچھے۔ اپنے آپ کو الگ بنائیں اور جو بھی کرتے ہیں، اس سے پہلے اچھی طرح سوچیں اور باقیوں سے پوچھیں کہ جو بھی وہ آپ کو کرنے کو کہہ رہے ہیں، اس کے پیچھے کیا وجہ ہے۔ کوئی بھی اس قابل نہیں ہوتا کہ آپ اندھا دن اس کو مان کر اس کے پیچھے چل پڑیں۔ اگر دنیا میں کوئی ایسی چیز ہے جس کو آپ کا اندھا دن ماننا کوئی تک بناتا ہے، تو وہ اللہ کا وجود اور اس کی طاقت میں ہر شے کا ہونا ہے، بس۔ اپنا راستہ خود بنائیں اور ہر کام سے پہلے اس کے کرنے کی وجہ اچھے سے معلوم کر لیں، خود تحقیق کریں، اچھی طرح ہر معاملے کی چھان بین کر لیں اور اوروں کیباتوں پر تو بالکل بھی نہ جائیں۔

Sharing is caring!

Comments are closed.