نہر

آج وہ بہت خوش تھی کیونکہ کتنے دنوں کے بعد اس کے شوہر کو ملازمت ملی تھی۔بلقیس اپنے شوہر کے ساتھ لاہور کی ایک نواحی آبادی میں ایک کمرے کے کرایہ کے مکان میں اپنی تین بچیوں کےساتھ رہتی تھی۔ بلقیس نے جلدی جلدی اکرم کی سائیکل صاف کی اور ایک کپڑے میں روٹی باندھ کر ہینڈل سے لٹکا دی۔

اکرم ابھی کمرے میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ باتیں کر رہا تھا اور ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کا وعدہ کر رہا تھا۔ بلقیس نے اسے آواز دی کہ جلدی کرو تم لیٹ ہو جاﺅگے۔ اکرم نے سائیکل اورکام پر چل دیا۔ کام سے فارغ ہو کر جب اکرم کو ایک ہفتے کی اکٹھی مزدوری ملی تو وہ خوشی سے دیوانہ ہوگیا اور گھر کی ضروری اشیاءخرید کر اس نے بیٹیوں کے لیے کھلونے خریدے اور” جگنی“گاتا ہوا گھر کی طرف چل پڑا۔جب اکرم گھر سے چند کلومیٹر دور نہر کے پل پر پہنچا تو دوسری طرف سے آنے والی ایک تیز رفتار کار نے اسے اس زور کی ٹکر ماری کے وہ سائیکل سمیت اڑتا ہوا کافی

دور جا کر گرا۔ چوٹ اتنی شدید تھی کہ وہ گرتے ہی ہلاک ہو گیا اوراس کا تمام سامان بھی بکھر کر دور دور گر گیا۔بلقیس نے دروازے کی اوٹ سے کافیلوگوں کوآتے دیکھا تو انجانے خیال سے اس کا دل ڈوبنے لگا۔ وہ لوگ اس کے دروازے پر آکر کھڑے ہوگئے اور ابھی دروازہ کھٹکھٹانے ہی والے تھے کہ اس نے اندر سے پوچھا کون ہےں اور کیا بات ہے؟ بس اس کے بعد اسے نہیں پتا کہ ان لوگوں نے پوچھنے پر اسے کیا جواب دیا۔

جب اسے ہوش آیا تو دیکھا کہ محلے کی عورتیں اس کے گھر پر ہیں اور اکرم ایک سفید لباس میں ملبوس چارپائی پر پڑا ہے جبکہ چارپائی کے پاﺅں سے لپٹی اس کی بیٹیاں رو رہی ہیں۔اکرم کی فوتگی کے بعد گھر میں کھانے پینے والی چیزیں آہستہ آہستہ ختم ہو رہی تھیں اور بلقیس کی بے چینی بڑھ رہی تھی۔اس نے میٹرک کیا ہوا تھا چنانچہ اس نے سوچا کہ ساتھ والی آبادی میں ایک سکول ہے اگر اسے وہاں نوکری مل جائے تو کتنا اچھا ہے۔بلقیس جب گھر سے باہر نکلی تو محلے داروں نے باتیں بنانی شروع کر دیں۔ کچھ کہہ رہے تھے کہ یہ اپنی عدت پوری کرے اورکچھ کا خیال تھا کہ عدت اپنی جگہ مگر اب وہ تین مہنیوں تک بھوکی بچیوں کے ساتھ کیسے گھر میں رہ سکتی ہے۔ بلقیس اس صورتحال سے پریشان تھی‘ اس سے بچیوں کا رونا نہیں دیکھا گیا اور اس نے سکول جانے کی ٹھان لی۔

اگلے روز وہ جب سکول جا رہی تھی توآبادی کی گلیوں اور سڑکوں پر کھڑے لوگ جن میں جوان بھی تھے اور بوڑھے بھی اسے عجیب سے نظروں سے دیکھ رہے تھے لیکن وہ ان سب سے بے پروا ہو کر سکول پہنچ گئی اور اسے وہاں پر چھ ہزار روپے ماہوار پر نوکری بھی مل گئی۔ اب بلقیس کے گھر کے اخراجات تو چلنے لگے مگر وہ بہت پریشان اور بے چین رہنے لگی۔ ایک تو روزانہ آوارہ لڑکوں کی نظریں اس کا پیچھا کرتی اور دوسرے سکول کا مالک بھی جو پہلے اسے بیٹی کہہ کر پکارتا تھا نے اب اسے بیٹی کہنا چھوڑ دیا تھا۔ایک روز جب محلے کے کچھ لڑکوں نے باقاعدہ طور پر بلقیس کا پیچھا کرنا شروع کر دیاتو اس نے علاقے کے کونسلر سے شکایت کرنے کا سوچا جو اکرم کا جاننے والا تھا۔

بلقیس کا خیال تھا کہ اکرم کی وجہ سے اسے یہاں ضرور پریرائی ملے گی اور وہ ضرور اس کا حل نکالے گامگر بلقیس بہت مایوس ہوئی جب وہ کونسلر کے پاس گئی جو اس وقت نشے میں دھت تھا جو بلقیس کو تسلیاں دینے کے ساتھ اس کے جسم کو گھور رہا تھا۔ وہ مایوس ہو کرآگئی۔ دوسری طرف آورہ لڑکوں کی حرکتیں بڑھ رہی تھی اور سکول کا مالک بھی تنگ کر رہاتھا۔ عزیز و اقارب اس قابل نہیں تھے کہ ان چاروں کے مالی اخرجات برداشت کر سکیں۔ایک رات کو وہ لیٹی یہ سوچتی رہی کہ آخر وہ کیا کرے اور کہاں جائے۔ کیا وہ ان لوگوں کی ہوجائے جو اس کے جسم کے متلاشی تھے یا پھر موت کو گلے لگا لے لیکن بچیوں کا کیا بنے گا؟

آخر سوچتے سوچتے اس نے ایک فیصلہ کیا اور مطمئن ہو کر اپنی بچیوں کے ساتھ لپٹ کر سو گئی۔ اگلے دن سکول بھی نہیں گئی۔ گلیوں اور سڑکوں پر آورہ لڑکے اس کی راہ تکتے رہے۔ جب رات ہوئی تو وہ مطمئن تھی۔ اس نے ایک فیصلہ کر لیا اور وہ اپنی بچیوں کو لیکر اسی نہر پر چلی گئی جہاں اکرم کو حادثہ پیش آیا تھا۔

Sharing is caring!

Comments are closed.