سفی اللہ ایک نوجوان تھا ماں باپ اس کے مر چکے تھے کوئی لڑ کا بھی نہیں تھا۔ صرف وہ تھا اور اس کی خوبصورت بیوی ستارہ وہ بہت سلیقہ شعار اور با شعور عورت تھی اس کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی اور ضرورت سے زیادہ الفت تھی ایک دن کی جدائی اس پر گراں تھی اور اسی بے پایہ محبت نے اسے تلاشِ معاش پر نکلنے سے باز رکھا یعنی وہ گھر پر ہی رہتا اور کام پر نہیں جاتا تھا۔ ایک دن اس کی بیوی نے شوہر سے کہا کہ باپ دادا کی پیدا کی ہوئی جائیداد کب تک ساتھ دے گی۔۔ اگر یہی رات دن رہا تو ایک دن غربت آکر رہے گی۔ اس کے شوہر نے کہا کیا کروں اور گھر کی جدائی اور تمہاری محبت با ہر جانے کی اجازت نہیں دیتی دل نہیں کرتا تم جیسی بھو لی او ر نو عمر لڑکی کو ایسے گھر میں اکیلا چھوڑ جا ؤں ۔اس کی بیوی نے کہا کہ زمانے کا یہی دستور ہے۔ کہ مرد کو باہر نکلنا پڑتا ہے تلا شِ معاش کے لیے تمہارے جیسا خیال اگر ہر کسی کا ہو جائے تو دنیا بند ہو جائے کسی بھی صورت میں جوان کا گھر چھوڑنے کو جی نہیں چا ہا رہا تھا۔ لیکن بیوی کی عاقلانہ گفتگو پوری طرح اس کی طرف اتر چکی تھی ۔ تو آخر کار گھر سے روانہ ہو گیا کسی دوسرے شہر تلا شِ معاش کے سلسلہ میں اس کے دوست نے اسے سٹیشن چھوڑا پھر نہیں معلوم کہ کہاں گیا اور کیسے گیا پورا ایک سال ستارہ شوہر کی جدائی میں جلتی رہی ۔ پورا ایک سال اس نے نہایت ہی صبر و تحمل سے گزارا کیا۔ لیکن آخر کب تک عورت جوان تھی ایک روز نمازِ عشاء پڑھ کر سوئی تھی کہ حضرت ابلیس اپنے قائدے کے مطابق آ ئے اور بچاری ستارہ کو طرح طرح سےبہکا نا شروع کر دیا۔ اس حد تک ستارہ کے نفس امارہ اور نفس صالح میں جنگ ہونے لگی ابلیس نے نفسِ امارہ کو ترجیح دی اور نفس صالح کو شکست دے دی ۔ اس کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہو گیا ستارہ کے محلے میں ایک بڑ ھیا رہتی تھی جو دور دور تک مشہور تھی۔ اسی وقت اس نے خادمہ کو بھیج کر بڑھیا کو بلو ایا اور خلوت میں لے جا کر اس سے کچھ دیر تک سر گوشی کر تی رہی۔ بڑھیا تو بلانے کے ساتھ ہی سمجھ گئی کہ میں کس مقصد کے لیے بلوائی گئی ہوں۔ ستارہ نے اپنی خواہش بیان کی ساتھ یہ بھی کہا کہ جوان ہو اور اعلیٰ ظرف ہو تا کہ میرے راز کو افشاں نہ کرے۔ بڑھیا نے سر سے پاؤں تک ستارہ کی بلا ئیں لیں۔ اور بہت سی دعا ئیں دیں اور نکل آئی ستارہ کے گھر سے۔ راستے میں چلتے ہی چلتے نوجوان کو بڑ ھیا نے تجویز کر لیا۔ بڑھیا ایک نوجوان کو لے کر جا ہی رہی تھی کہ اس نوجوان نے کہا کہ مجھے حاجت ہوئی ہے۔ تم اسی جگہ ہی رکو میں یہیں آ جاؤں گا۔ بڑ ھیا وہیں رکی اور جوان طہارت سے جب فارغ ہو کر جب واپس چلا تو ایک ٹھوکر لگنے پر زمین پر گر پڑا لوٹے سمیت مٹی کا لوٹا تھا جو زمین پر گر پڑ ا۔ تو اس کا لوٹا ٹوٹ گیا ۔ بڑھیا نے دیکھا کہ نوجوان رو رہا ہے تو پوچھنے پر کہنے لگا کہ بڑھیا میں اس نقصان پر نہیں رو رہا تو بڑھیا نے پو چھا کہ کیا ہوا ہے تو نوجوان نے ایک چیخ ماری چودہ سال سے یہ لوٹا میرا ہم راز تھا کسی نے آج تک میرا سطر نہیں دیکھا ۔ ورنہ یہ تو میں بھی جا نتا ہوں کہ بازار میں اچھے سے اچھا لوٹا مل جاتا ہے اتنا کہہ کر وہ چلتا بنا اور بڑھیا ناکام ہو کر اپنی راہ پر چلی جب گھر پہنچی تو ستارہ بے چینی سے اس کا انتظار کر رہی تھی ستارہ خوشی سے اچھل پڑی کہ بڑھیا کوئی شکار ڈھونڈ کر لائی ہے اس کے لیے مگر بڑھیا نے کہا کہ صبر کے ساتھ اطمینا ن بھی رکھو۔ آج شکار مل تو گیا تھا مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ستارہ کو سارا ماجرہ بتا یا۔ تو ستارہ رونے لگی تو بڑھیا کے پوچھنے پر کہنے لگی کہ میری قابلِ نفرت زندگی پر مجھے افسوس ہوتا ہے شیطان کے بہکاوے میں آ کر میں نے اپنے شوہر کو دھو کا دینا چا ہا۔ ایسی بے حیا ئی کی زندگی سے تو موت ہی بہتر ہے۔ افسوس۔ نوجوان نے ایک بے جان لوٹے کو اپنا ستر د کھا نا پسند نہ کیا اور میں ایک غیر مرد کو اپنا ستر دکھانے کے لیے خوشی خوشی راضی ہو گئی۔ مجھے خاوند کا خیال بھی نہیں آیا۔ تو اس ستارہ نے توبہ کی اور دونوں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے اور اس ستارہ کے طفیل بڑھیا نے بھی توبہ کی اور توبہ کرنے پر اللہ نے اس بڑھیا کے لیے ایسے رزق کا انتظام کر دیا کہ وہ حیران رہ گئی۔ ستارہ کا شوہر بہت پیسے کما کر لا یا اور اس کا شمار شہر کے امیروں میں ہونے لگا تو ستارہ کی مدد کرنے کے لیے گھر کے کاموں میں اس بڑھیا کو بلو ا لیا اور اسے کام پر رکھ لیا۔ اس طرح وہ ہنسی خوشی اپنی زندگی بسر کر نے لگے

ایک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پر موٹے ما کر سے لکھا ہوا تھا، گھر میں کوئی نہیں ہے، میری بوڑھی ماں فالج زدہ ہے، مجھے تھوڑی تھوڑی دیر بعد انہیں کھا نا اور حاجت کرانی پڑ تی ہے، اگر آپ کو جلدی ہے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول لیں اور پیسے کونے پر ریگزین کے گتے کے نیچے رکھ دیجئے۔ ساتھ ہی ریت بھی لکھے ہوئے ہیں اور اگر آپ کے پاس پیسے نہ ہوں۔ ادھر اُدھر دیکھا ، پاس پڑ ے ترازو میں دو کلو سیب تولے، درجن کیلے لیے شاپر میں ڈالے پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کو نے کو اٹھا یا وہاں سو پچاس دس دس کے نوٹے پڑ ے تھے۔ میں نے پیسے اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی میری طرف متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آ گیا۔ افطار کے بعد میں اور بھائی ادھر گئے۔ دیکھا ایک باریش آدمی داڑھی آ دھی کالی آدھی سفید ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا تھا وہ ہمیں دیکھ کر مسکر ایا اور بو لا صاحب ! پھل تو ختم ہو گیا۔ نام پو چھا تو بو لا خادم حسین پھر ہم سامنے ڈھا بے پہ بیٹھے تھے ۔

چائے آئی۔ کہنے لگا پچھلے تین سال سے اماں بستر پر ہے کچھ نفسیاتی سی بھی ہو گئی ہے۔ اور اب تو فالج بھی ہو گیا ہے۔ میرا کوئی بال بچہ نہیں بیوی مر گئی ہے صرف میں ہوں اور میری ماں۔ اماں کی دیکھ بھال کر نے والا کوئی نہیں ہے اس لیے مجھے ہر وقت اماں کا خیال رکھنا پڑ تا ہے۔ ایک دن میں نے اماں کے پاؤں دباتے ہوئے، بڑی نرمی لہجہ سے کہا اماں ! تیری تیمارداری کو تو بڑا جی کرتا ہے۔ پر جیب میں کچھ نہیں تو مجھے کمرے سے ہلنے نہیں دیتی۔ کہتی ہے تو جا تا ہے تو جی گھبر اتا ہے، تو ہی بتا میں کیا کروں؟ اب کیا غیب سے کھا نا اترے گا؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو موسیٰ کی ماں ہے کیا کروں ! یہ سن کر اماں نے ہا نپتے کا نپتے اٹھنے کی کوشش کی میں نےتکیہ اونچا کر کے اسکو بٹھا یا ، ٹیک لگوائی ، انھوں نے جھریوں والا چھرہ اٹھا یا اپنے کمزور ہاتھوں کا پیا لا بنا یا، اور نہ جانے رب العا لمین سے کیا بات کی، پھر بولی توریڑھی وہی چھوڑ آ یا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا۔

میں نے کہا!اماں کیا بات کرتی ہے۔ وہاں چھوڑ آ ؤں گا تو کوئی چورا چکا سب کچھ لے جا گا، آج کل کون لحاظ کرتا ہے؟ بنا ما لک کے کون خریدار آ ئے گا؟ کہنے لگی! تو فجر کو ریڑ ھی پھلوں سے بھر کر چھوڑ کر آ جا بس ، زیادہ بک بک نہیں کر، شام کو خالی لے آ یا کر، اگر تیرا روپیہ گیا تو یہ خالدہ ثریا ! اللہ سے پائی پائی وصول دے گی۔ ڈھائی سال ہو گئے ہیں بھائی ! صبح ریڑ ھی لگا جاتا ہوں۔ شام کو لے جاتا ہوںِ لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے۔ اکثر تخمینہ نفع لا گت سے تین چار سو اوپر ہی نکلتا ہے کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے ، کبھی کوئی اور چیز! پرسوں ایک پڑ ھی لکھی بچی پلاؤ بنا کر رکھ گئی۔

نوٹ لکھ کر رکھ گئی اماں کے لیے۔ اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا۔ پشت پہ لکھ گیا انکل ! اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کر نا ، میں گھر سے پک کر لوں گا۔ کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو! عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کر کے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے!اماں تو کہتی ہے کہ تیرا پھل بیچنے کے لیے اللہ خود نیچے اتر آ تا ہے اور بیچ باچ جاتا ہے۔ وہ سوہنا رب ایک تو رزاق ہے اور اوپر سے ریٹیلر بھی ہے۔ آخر میں مجھے اپنے بچوں سے کہنا ہے کہ اگر آپ فارغ ہوں اور اپنےو الدین کو کام کرتے دیکھیں تو فورا ً اٹھ کر ان کی مدد کریں اور انہیں کہیں کہ امی جان ابا جان لائیے میں مدد کرتا ہوں۔ پھر دیکھیے گا کہ دنیا اورآخرت کی کا میابیاں کیسے تمہارے قدم چومتی ہیں۔ انشاء اللہ۔

Sharing is caring!

Comments are closed.