
سچی محبت کا کیسے پتہ چلتا ہے
اس کی وجہ یہ تھی مجھے لگتا تھا کہ اگر کبھی میرا اس سے آمنا سامنا ہوا، بس میں، ٹرین میں، کسی شاپنگ مال میں، تو میں برداشت نہیں کر پاؤں گی۔اگلے آٹھ ماہ تک میں نے دل بہلانے کی بڑی کوششیں کی، سمندر میں تیراکی، میلوں تک چہل قدمی، پہروں رونا، ایک پروجیکٹ پر کام۔ لیکن اداسی کی دھند چھٹنا تھی نہ چھٹی۔مجھے احساس ہوا کہ میری جیسی شہری خاتون کے لیے دیہی زندگی مزید تنہا کر دینے والی ہے۔ میرے خاندان والے میرے قریب تھے لیکن مجھے دوستوں کی ضرورت تھی۔ فون پر ان سے رابطہ کچھ عرصے رہا، پھر انھوں نے بھی فون کرنا چھوڑ دیا۔میرے پاس گاؤں آنے کے وعدے بھی کبھی وفا نہیں ہو سکے۔
زندگی کب کسی کے لیے رکتی ہے؟ میں خود کو پہلے سے زیادہ تنہا محسوس کرنے لگی۔میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا دل ٹوٹنے کا کوئی مثبت طریقہ بھی ہو سکتا ہے؟ اس وقت مجھے اس سوال کا جواب نہیں ملا لیکن ایک سال بعد میں خود ہی اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرنے رہی ہوں۔دل ٹوٹنا ہوتا کیا ہے؟ماہرِ نفسیات جو ہیمنگز کہتے ہیں:’یہ دراصل زبردست جذباتی نقصان کی کیفیت ہے۔ یہ حالت ہر انسان پر مختلف طریقے سے گزرتی ہے لیکن اس میں دکھ، غم اور غم کی حالت سے کبھی باہر نہ آ پانے کا احساس شامل ہوتا ہے۔’اگر دماغ کے اندر دیکھا جائے تو وہی حصے ان جذبات کے ذمہ دار ہوتے ہیں جو اصل جسمانی درد کی صورت میں فعال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں ایسی ہی علامات پائی جاتی ہیں جو نشے کے عادی افراد نشہ ٹوٹنے کے بعد محسوس کرتے ہیں۔
‘گاؤں کا منظر،تصویر کا ذریعمیرے لیے یہ کیفیت ایسی تھی جیسے جسم اندر سے جل رہا ہو۔ان علامات پر قابو پانا اصل مشکل ہے۔ اس دوران آپ پر ناقابلِ برداشت غلبہ طاری ہو جاتا ہے کہ آپ اپنے کھوئے ہوئے محبوب کو دوبارہ فون کریں، اس کی منت سماجت کریں، اسے سمجھانے کی کوشش کریں کہ آپ کون ہیں۔’جو کہتے ہیں: ‘جذباتی اعتبار سے تعلق ٹوٹنے سے آپ غم کے پانچ مراحل سے گزرتے ہیں: نفی، غصہ، سودا بازی، پژمردگی، اور بالآخر قبولیت۔’دل ٹوٹنے سے کس طرح نمٹا جائے؟یہ ایک آرٹ ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سائنس سے مدد نہیں لے سکتے۔ سائنس دانوں نے اس پر تحقیق کر رکھی ہے کہ اس دوران جسم پر کیا گزرتی ہے اور اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔مثال کے طور پر نفسیات کے ایک رسالے میں حال ہی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق تین طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔ اپنے سابق ساتھی کی بری باتیں سوچنا، اس کے بارے میں اپنے محبت کو قبول کر لینا، اور اپنے ذہن کسی اور طرف الجھا لینا۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ تینوں طریقے تعلق ٹوٹنے کا غم غلط کرنے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔
ان تینوں حکمتِ عملیوں کی مثالیں:اس کے منھ سے بدبو آتی تھی، اسے خود اپنی آواز بہت پسند تھی۔پیار کرنا کوئی بری بات نہیں ہے، چاہے اب وہ نہیں بھی رہاآج کیا شاندار موسم ہےتعلقات کی ماہر ڈی ہومز کہتی ہیں: ‘خود کو کچھ وقت دیں۔ اپنے دوستوں سے بات کریں اور ڈائری میں لکھیں کہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ اس چیز کو اپنی زندگی پر حاوی نہ ہونے دیں۔ اندھادھند فیصلے نہ کریں۔’جو کہتی ہیں کہ اپنے سابق ساتھی کو سوشل میڈیا پر ان فالو کر دیں۔ ‘ایسی تصویریں یا پیغامات ڈیلیٹ کر دیں جو آپ کو دکھ پہنچاتے ہیں۔ اس سے آپ کے زخم مندمل ہونے میں مدد ملتی ہے۔’غم کے مختلف مراحل میں غصے کا اپنا کردار ہے۔ میرا اپنا غصہ آتش فشانی تھا۔ غصے کے اپنے فائدے ہیں، کیوں کہ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ اس شخص کو مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ تاہم بعض دوسرے ماہرین کہتے ہیں۔
کہ آپ خود کو یقین دلانے کی کوشش کریں کہ آپ نے کبھی ان سے محبت کی ہی نہیں تھی۔نشہ ٹوٹنا،تصویر کا ذریعہآپ غور کریں کہ آپ کے ساتھی میں کیا خوبیاں تھیں، پھر ان خوبیوں کو کسی اور میں ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ میرا ساتھی بہت ہمدرد تھا۔ کیا دنیا میں اور ہمدرد لوگ موجود ہیں؟ ظاہر ہے، موجود ہیں۔مجھے احساس ہوا کہ اس طرح سے اپنے تعلق کا پوسٹ مارٹم کرنے کا فائدہ ہوتا ہے۔ شروع شروع میں نہیں۔ ‘سمندر میں مچھلیوں کی کمی نہیں،’ شروع میں یہ سوچ کسی کام کی نہیں ہوتی۔لیکن رفتہ رفتہ اس احساس نے کام دکھانا شروع کر دیا کہ میرا ساتھی بےعیب نہیں تھا اور اس میں جو خوبیاں تھیں وہ اور لوگوں میں بھی ہیں۔ان نکات کو اکٹھے کر دیں اور پھر ایک منصوبے کے خدوخال ابھرنے لگتے ہیں: اپنی صورتِ حال کو قبول کریں اور اپنے آپ کو غم اٹھانے کی اجازت دیں۔ اپنے خاندان کے افراد اور دوستوں سے بات کریں۔ ڈائری لکھیں، سوشل میڈیا سے پرہیز کریں، تکلیف دہ چیزیں ڈیلیٹ کر دیں۔ اپنے توجہ بٹانے کی کوشش کریں۔ساتھی سے رابطے کا خیال دل سے نکال دیں۔
اس کی خامیوں کے بارے میں سوچیں۔ اس پر توجہ مرکوز کریں کہ اس کی خوبیاں دوسرے لوگوں میں بھی پائی جا سکتی ہیں۔اور سب سے بڑھ کر، وقت گزرنے دیں، جو سب سے بڑا مرہم ہے۔اس عمل میں کتنا وقت لگتا ہے؟آپ جلد بازی نہیں کر سکتے۔ ایک تحقیق کے مطابق تعلق کے بارے میں مثبت انداز سے سوچنے میں تین مہینے (11 ہفتے) لگتے ہیں۔جیسا کہ میں نے کہا، یہ کوئی سائنس نہیں ہے۔ خود مجھے اس پر قابو پانے میں چھ مہینے لگے۔ اس کے بعد سے میں نے اپنے سابق ساتھی کے لیے ایک آنسو بھی نہیں بہایا۔دل ٹوٹنے کے بارے میں میرا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ اس سے نمٹنا اتنا آسان ہے کہ اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔ اصل گر یہ ہے کہ آپ سمجھیں کہ آپ اس قابل ہیں کہ آپ سے محبت کی جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو کوئی اور مل جائے گا۔